ایک سو چھتیس(۱۳۶) بار آیا ہے۔ انھی کی زندگی کی زیادہ مماثلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا ﴾ [المزمل: ۱۵] ’’بلاشبہہ ہم نے تمھاری طرف ایک پیغام پہنچانے والا بھیجا جو تم پر گواہی دینے والا ہے، جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک پیغام پہنچانے والا بھیجا۔‘‘ انہی کی التماس پر حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ حضرت ہارون علیہ السلام عمر میں گو ان سے بڑے تھے مگر مرتبہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بڑے ہیں۔ اولوا العزم انبیا میں انہی کا شمار ہوتا ہے۔ ﴿ وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ ﴾ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام پر اپنے احسان کا ذکر فرمایا ہے۔ اور احسان سے مراد یہاں نبوت و رسالت ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مرتبہ یہی رسالت و نبوت ہے۔ اس لیے یہی کامل معنی یہاں اولِ و اہلہ میں مراد ہیں۔ نبوت کسبی نہیں وہبی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص عنایت ہوتی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام سفر میں تھے موسم سرد تھا بیوی ہمراہ تھی سردی سے بچنے کے لیے ایک درخت کے پاس آگ کا شعلہ محسوس کرکے آگ لینے گئے تھے کہ بن مانگے اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرما دیا۔[1] اور ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام کی سفارش سے گھر بیٹھے نبوت مل گئی، اس میں موسیٰ علیہ السلام پر دہرا اِحسان ہے کہ انھیں نبی بنایا اور ان کے کہنے پر ان کے بھائی کو بھی نبی بنا دیا۔ احسان و انعام کی مختلف اور بے شمار نوعیتیں ہیں مگر بنیادی طور پر دوچیزوں |