﴿ وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ (114) وَنَجَّيْنَاهُمَا وَقَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ (115) وَنَصَرْنَاهُمْ فَكَانُوا هُمُ الْغَالِبِينَ (116) وَآتَيْنَاهُمَا الْكِتَابَ الْمُسْتَبِينَ (117) وَهَدَيْنَاهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (118) وَتَرَكْنَا عَلَيْهِمَا فِي الْآخِرِينَ (119) سَلَامٌ عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ (120) إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (121) إِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ(122) ﴾[الصّٰفّٰت: ۱۲۲۔ ۱۱۴] ’’اور بلاشبہہ یقینا ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان کیا۔ اور ہم نے ان دونوں کو اور دونوں کی قوم کو بہت بڑی مصیبت سے نجات دی۔ اور ہم نے ان کی مد د کی تو وہی غالب ہوئے۔ اور ہم نے ان دونوں کو نہایت واضح کتاب دی۔ اور ہم نے ان دونوں کو سیدھے راستے پر چلایا۔ اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں ان کے لیے یہ بات چھوڑی کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ہو۔ بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ بے شک وہ دونوں ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔‘‘ ان آیات مبارکہ میں تیسرا قصہ، حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا، بیان ہوا ہے۔ ترتیب زمانی کے اعتبار سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے وہی پہلے رسول ہیں، ان کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ ہے جو ملتِ حنیفیہ کے امام ہیں، ان کے بعد اب موسیٰ و ہارون علیہما السلام کا ذکر ہوا ہے۔ ان میں مرتبہ کے اعتبار سے موسیٰ علیہ السلام کا مقام بلند ہے۔ وہی کلیم اللہ ہیں، انہی کو تورات دی گئی تھی۔ قرآنِ مجید میں سب سے زیادہ ذکر انھی کا ہوا ہے۔ چنانچہ چونتیس (۳۴) سورتوں میں ان کا نام |