کہلایا۔ بنو اسرائیل میں نبوت وبادشاہت جاری فرمائی اور ان میں دو بڑے مذہب (یہودیت و نصرانیت) وجود میں آئے۔ بنو اسماعیل میں ختم الرسل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور ان کے خاندان قریش کو سیادت و قیادت سے سرفراز فرمایا گیا۔ ﴿ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ ﴾ دونوں کی ذریت میں کوئی نیکی کرنے والا ہے اور کوئی اپنے آپ پر صریح ظلم کرنے والا ہے۔ ’’محسن‘‘ سے ایمان و توحید کو قبول کرکے اطاعت وفرماں برداری میں زندگی بسر کرنے والا مراد ہے، جب کہ ’’ظالم‘‘ سے کفر و شرک اختیار کرنے والا اور فسق وفجور میں مبتلا انسان مراد ہے۔ یہ بات کہہ کر خبردار کیا گیا ہے کہ ان دونوں خاندانوں کا یہ شرف وفضل اس کا قطعاً متقاضی نہیں کہ نسلی و نسبی طور پر ان کی تمام ذریت بھی ہدایت اور صراطِ مستقیم پر ہوگی۔ جیسے نصرانی و یہودی اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں: ﴿ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ﴾ [المائدۃ: ۱۸] ’’ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔‘‘ اور وہ اس زعم میں بھی مبتلا تھے: ﴿ لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى ﴾ [البقرۃ: ۱۱۱] ’’جنت میں ہر گز داخل نہیں ہوں گے مگر جو یہودی ہوں گے یا نصاریٰ۔‘‘ جس مالک نے دونوں خاندانوں کو عزت دی تھی اس نے خبر دار کیا ہے کہ ان میں سبھی نیک نہیں ہوں گے، کافر و فاسق بھی ہوں گے۔ اور ہم دیکھیں کہ محسن کون ہے؟ اورظالم کون؟ فیصلہ اسی بنیاد پر ہوگا، حسب ونسب کی بنیاد پرنہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب مرتبہ امامت سے سرفراز فرمایا گیا تو اُنھو ں نے عرض کیا: ﴿ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ﴾ [البقرۃ: ۱۲۴] ’’اور میری اولاد میں سے بھی (بعض کو |