کہ اسے تو نبوت کے منصب پر فائز ہونا ہے۔ یوں نہ یہ ’’بلائِ مبین ‘‘ قرار پاتی اور نہ ہی ابراہیم علیہ السلام اس پر تعریف کے مستحق قرار پاتے۔ ﴿ الصَّالِحِينَ ﴾ یہ بھی حال ہے۔ ہر نبی صالح اور فرمانبردار ہوتاہے۔ مقام نبوت صالحیت سے بہر نوع بالا تر ہے۔ اس میں دراصل صالحیت کے مقام کی عظمت کی طرف اشارہ ہے۔ اور یہ بھی کہ نبوت سے پہلے وہ مقامِ صالحیت پر فائز تھے۔ نبی جب تک اس مرتبہ صالحیت پر فائز نہ ہو اسے مقامِ نبوت پر سرفراز نہیں کیاجاتا۔ ﴿ وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ ﴾ اور ہم نے اس پر اور اسحاق پر برکت نازل کی۔ ’’علیہ ‘‘ یعنی ’’اس پر‘‘ سے کون مراد ہے؟ اس بارے دو قول ہیں: 1 حضرت ابراہیم علیہ السلام مراد ہیں۔ 2 اس سے مراد حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔ علامہ شوکانی نے گو اس کی تردید کی ہے اور اسے بعید تاویل قرار دیا ہے مگر علامہ مفضل نے کہا ہے کہ سیاق قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسماعیل علیہ السلام مراد ہیں کیوں کہ پہلے ذبحِ اسماعیل علیہ السلام کا ذکر ہے پھر حضرت اسحاق علیہ السلام کی بشارت کا ذکر ہے اس لیے ﴿ وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ ﴾ سے حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی مراد ہیں۔ اس کے بعد ﴿ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا ﴾ سے بھی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام مراد ہیں۔ (قرطبی) ﴿ ذُرِّيَّتِهِمَا ﴾ سے حضرت ابراہیم اور اسحاق علیہما السلام مراد نہیں ہو سکتے کیوں کہ اسحاق علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت ہیں ان کے مدمقابل نہیں ہیں۔ اگر ﴿ وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ ﴾ سے مراد ابراہیم علیہ السلام ہیں تو پھر ﴿ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا ﴾ کے بجائے ’’ومن ذریتہ‘‘ ہونا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسحاق علیہ السلام ان کی ذریت میں ہیں۔ تورات میں بھی حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ حضرت اسماعیل کو بھی برکت دینے کا ذکر ہے: ’’اسماعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دعا سنی۔ دیکھ میں اسے برکت |