اللہ تعالیٰ نے انھیں آزمایشوں میں کامیابیوں سے نوازا۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’محسنین‘‘ کی جزا سے یہاں مراد یہ ہے کہ ہم انھیں دنیا و آخرت میں سختیوں سے نجات بخشتے ہیں۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص احکامِ الٰہی کی تعمیل میں ’’احسان‘‘ پر کاربند ہوتا ہے یعنی وہ کوشش کرتا ہے کہ اللہ کے ہر حکم کی ایسی تعمیل کی جائے، جیسے اس کے کرنے کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا کے بڑے بڑے امتحانوں اور ابتلاؤں میں کامیابیوں سے سرفراز فرماتا ہے اور آخرت کی سختیوں سے بچا کے ابدی فیروز مندیاں عطا فرماتا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں: محسنین کو اسی طرح جزا دینے کا مفہوم یہ ہے کہ اسی طرح ہم اپنے اطاعت گزاروں کی تنگیوں اور سختیوں کو دور کر دیتے ہیں اور ان کے معاملات میں ان کے لیے چھٹکارے اور نجات کی صورت پیدا کردیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ﴾ [الطلاق: ۲، ۳] ’’اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔ اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ بے شک اللہ اپنے کام کو پورا کرنے والا ہے، یقینا اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی اپنی زندگی کا خلاصہ یہی بیان کیا ہے: ﴿إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴾[یوسف: ۹۰] |