آپ کو خاوند کے حوالے کر دے مگر خاوند کسی وجہ سے اس سے ملاپ نہیں کر سکتا تو بھی خاوند پر حق مہر واجب ہوجاتا ہے اور اگر خاوند اس کے بعدفو ت ہو جائے تو اس عورت پر عدت لازم ہے۔ اسی طرح اگر کوئی امانت اس کے مالک کو پیش کرتا ہے اور وہ اسے لینے پر قادر ہے تو امانت ادا ہو جائے گی اگرچہ اس نے اسے باقاعدہ اپنے قبضے میں نہ لیا ہو۔ اسی نوعیت کے کئی مسائل فقہائے کرام نے مستنبط کیے ہیں۔[1] ﴿إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴾ بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ ’’محسنین‘‘ یہ ’’احسان‘‘ سے ہے اور یہ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے: 1.دوسروں پر انعام و احسان کرنا۔ عدل تو یہ ہے کہ دوسرے کا حق پورا پورا اَدا کیا جائے اوراحسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے۔ 2.اپنے فعل و عمل میں حسن و نکھار پیدا کرنا۔[2] اس مفہوم میں ’’احسان‘‘ کا بیان حدیث جبرائیل علیہ السلام میں ہے: (( أن تعبد اللّٰہ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک )) [3] ’’تُو اللہ کی عبادت کر گویا کہ تُو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے دیکھ نہیں رہا تو بے شک وہ تجھے دیکھتا ہے۔‘‘ ’’محسنین‘‘ کے بارے میں جزا کا ذکرپہلے آیت نمبر اسّی (۸۰) میں بھی آیا ہے۔ اس کے تحت جو ہم لکھ آئے ہیں اس پر بھی ایک نگاہ ڈال لیجیے۔حافظ ابن قیم ’’احسان‘‘ کی تعریف میں فرماتے ہیں: ’’فعل المأمور بہ سواء کان إحسان إلی الناس أو إلیٰ نفسہ‘‘[4] ’’حکم پر عمل کرنا، اس کا تعلق خواہ لوگوں سے ہو یا اپنی ذات سے۔‘‘ ابراہیم علیہ السلام کی تو ساری زندگی احکامِ الٰہی کی پابندی سے عبارت ہے۔ اسی بنا پر |