ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔[1] امام قرطبی نے کہا ہے کہ یہی سب سے صحیح تعبیر ہے۔ بلکہ علامہ محمد درویش بن محمد الحوت (المتوفی: ۱۲۷۶ھ) نے فرمایا ہے کہ گلے پر چھری رکھنے اور گلے کے نہ کٹنے کی بات جھوٹی بناوٹی ہے۔[2] ﴿قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ﴾ یقینا تم نے خواب سچا کر دکھایا۔ یعنی جو حکم ملا تھا وہ اپنی طرف سے پورا کر دیا۔ یہ نہیں دکھایا تھا کہ تم نے بیٹے کو ذبح کر دیا ہے، بلکہ یہ دکھایا تھا کہ تم ذبح کر رہے ہو۔ تم تو مکمل طور پر ذبح کے لیے تیار ہو گئے مقصود بیٹے کو ذبح کرانا نہیں، بلکہ امتحان مقصود تھا اور وہ تمھاری مکمل عملی تیاری سے حاصل ہوگیا۔ عزمِ فعل بالخصوص جب کہ وہ من وجہ فعل سے مؤید ہو، کامل اجر کا باعث بن جاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ﴾ [النساء: ۱۰۰] ’’اور وہ شخص جو اللہ کے راستے میں ہجرت کرے، وہ زمین میں پناہ کی بہت سی جگہ اور وسعت پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے، پھر اسے موت پالے تو بے شک اس کا اجر اللہ پر ثابت ہو گیا اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ یہاں بھی ہجرت کے لیے نکلنے پر ہجرت کے اجر و ثواب کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام بھی ذبحِ فرزند کے لیے گھر سے نکلے، ذبح کے لیے بیٹے کو لٹا دیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں قبولیت کا پیغام مل گیا۔ اسی سے علمائے کرام نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ شادی کے بعد عورت اپنے |