کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے اس کی طرف وحی کی۔‘‘ یہاں بھی ’’وأوحینا‘‘ میں ’’و‘‘ زائد ہے۔ علامہ قرطبی نے اس کی اور بھی مثالیں ذکر کی ہیں۔ مگر اہل بصرہ کہتے ہیں کہ ’’فلما‘‘ کا جواب محذوف ہے اور وہ ہے: ’’فدیناہ بکبش‘‘[1] بعض روایات و آثار میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چھری گلے پر چلائی تو وہ الٹی ہو گئی حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ کیا معاملہ ہے؟ چھری اپنا کام کیوں نہیں دکھاتی؟ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ یہ اُلٹی ہو گئی ہے، اسماعیل علیہ السلام نے کہا: نیزہ مارنے کی طرح اسے ماریے۔ بعض کہتے ہیں کہ جونہی گلہ کٹتا وہ پھر مل جاتا۔ یہ بھی کہا گیا کہ گلہ تانبے کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ اور یہ بھی کہ ابراہیم نے تین بار پتھر پر چھری تیز کی مگر اس نے کام نہ کیا۔ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا مجھے باندھ لیں، مجھے اوندھے منہ لٹا کر ذبح کریں کہ شفقت پدری جوش نہ مارے۔ مگر اس نوعیت کی کوئی روایت صحیح نہیں۔ علامہ قرطبی نے فرمایا ہے کہ ایسا ہو جانا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج نہیں: ’’لکنہ یفتقر إلی نقل صحیح‘‘[2] ’’مگر یہ نقل صحیح کی محتاج ہے۔‘‘ صحیح یہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اسماعیل علیہ السلام کو پہلو کے بل لٹا لیا گیا۔ ان کی قمیص اتار لی گئی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ آپ نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے، ہم نے آپ کو جس بات کی تلقین کی تھی، وہ آپ نے کر دی اور جو آپ کر سکتے تھے وہ کر دیا۔ یہی علامہ آلوسی کا رجحان ہے اور اسی تعبیر کو اکثر اجلہ مفسرین کا قول قرار دیا ہے اور دوسری روایات کے |