سے خارج ہے۔ بیت اللہ الحرام میں شامل نہیں۔ ان آیات کا مصداق بالاتفاق حرم مکہ مکرمہ ہے۔[1] اور منٰی حرم مکہ میں شامل ہے۔ ثانیاً: تمتع کے علاوہ جزائے صیدہو، فدیہ اذی ہو یا رکاوٹ کی وجہ سے قربانی ہو تمام کامحل قربانی یہی حرم ہے اس سے باہر نہیں۔ اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ تورات کے بیان سے بھی یہ استدلال کیا گیا کہ اس میں محل قربانی ’’موریاہ‘‘ یا ’’مورہ‘‘ مذکور ہے اور یہ مروہ سے تحریف ہے۔ سبحان اللہ! حالانکہ جو لوگ تورات میں اسماعیل سے اسحاق بنا سکتے ہیں، ان کے لیے منٰی کے بجائے مورہ بنا دینا کیوں کر بعید ہے؟ افسوس ہے کہ تورات میں ایک تو تحریف کا اعتراف ہے اور پھر تحریف کے سہارے سنن و آثار سے انحراف، تحقیق جدید کا شاہکار بتلایا جاتا ہے۔ إنا ﷲ و إنا إلیہ راجعون! مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی نے بھی منٰی ہی کو محل قربانی قرار دیاہے۔[2] علامہ قرطبی نے یہی قول حضرت ابن عباس ابن عمر، محمد بن کعب اور سعید بن المسیب رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے۔ ﴿وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ ﴾ اہلِ کوفہ کہتے ہیں کہ یہ ’’فلما‘‘ کا جواب ہے کہ جب دونوں نے حکم مان لیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم ! وہ کہتے ہیں کہ یہاں ’’و‘‘ زائد ہے۔ ’’حتی‘‘ اور ’’لما‘‘ کے ساتھ ’’و‘‘ زائدہ آتی ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے: ﴿فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَا ﴾ [یوسف: ۱۵] ’’پھر جب وہ اسے لے گئے اوراُنھوں نے طے کر لیا کہ اسے اندھے |