اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ محل قربانی منٰی ہے۔ یہ بات بھی عجیب ہے کہ جن آثار میں حضرت اسحاق علیہ السلام کو ذبیح کہا گیا ہے، ان میں بھی محل قربانی منٰی ہی ذکر ہوا ہے۔ اس کے برعکس علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی میں اور مولانا حمید الدین فراہی ’’الرأي الصحیح‘‘ میں اور مولانا شبیر احمد عثمانی محل قربانی مروہ قرار دیتے ہیں۔ علامہ قرطبی نے بھی ایک قول ’’قیل‘‘ کے ساتھ یہ نقل کیا ہے کہ محل قربانی مکہ میں ’’مقام‘‘ کے پاس ہے۔ مگر یہ موقف درست نہیں۔ علامہ فراہی کے استدلال کی بنیاد یہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مروہ کی نسبت فرمایا ہے کہ یہ ’’المنحر‘‘ اصل قربان گاہ ہے۔ حالانکہ روایت کے مکمل الفاظ یوں ہیں: ’’أن رسول اللّٰہ صلي الله عليه وسلم قال بمنی: (( ہذا المنحر، وکل منی منحر۔ )) وقال في العمرۃ: (( ہذا المنحر- یعنی المروۃ- وکل فجاج مکۃ وطرقھا منحر))‘‘ [1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی میں فرمایا: یہ ’’المنحر‘‘ ہے اور سارا منی قربان گاہ ہے اور عمرہ میں فرمایا: یہ ’’المنحر‘‘ ہے، یعنی مروہ منحر ہے اور مکہ کی سب گلیاں بازار قربان گاہ ہیں۔‘‘ موطأ میں یہ روایت بلاغًا ہے۔ علامہ ابن حزم نے اسے اپنی سند سے نقل کیا ہے[2] اور عمرۃ القضا میں مروہ پر قربانی کا ذکر طبقات ابن سعد وغیرہ میں مذکور ہے۔[3] حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عمرہ میں قربانی مروہ پر اور حج میں منٰی میں کرتے تھے۔[4] اسی طرح ﴿هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ ﴾ [المائدۃ: ۹۵] اور ﴿ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴾ [الحج: ۳۳] سے اس پر استدلال بھی عجیب ہے۔ حالانکہ ’’مروہ‘‘ بیتِ عتیق |