Maktaba Wahhabi

287 - 438
اور اسحاق علیہ السلام کا ختنہ اس وقت کیا، جب وہ آٹھ دن کا ہوا۔[1] ’’السعي‘‘ سے بعض نے عبادت اور نماز روزہ میں سعی مراد لی ہے۔ ’’معہ السعی‘‘ میں مفسرین نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ وہ باپ کے ساتھ کام کاج میں شریک ہو گئے تھے اور ان میں کام کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی تھی۔ یہ صلاحیت نہ ہو تو باپ کی شفقت بیٹے پر ایسا بوجھ ڈالنے سے مانع ہوتی ہے۔ ﴿ قَالَ يَا بُنَيَّ ﴾ ’’فرمایا: اے میرے چھوٹے سے بیٹے!‘‘ جو بیٹا چھیاسی سال کی عمر میں بوڑھے باپ کو ملا، سو سال کے قریب ہونے لگے تو بیٹا زندگی کی تقریباً تیرہ بہاریں دیکھ چکا اور کام کاج میں باپ کا دست و بازو بننے لگا۔ ایسے محبوب اور لاڈلے اکلوتے بیٹے کو شفقت بھرے الفاظ میں فرماتے ہیں: اے میرے پیارے بچے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ تم دیکھو کہ تمھارا کیا خیال ہے؟ بیٹے سے خواب کا ذکر اور اس سے اس بارے رائے طلب کرنے کا مقصد یہ قطعاً نہیں تھا کہ انھیں اس بارے میں کوئی تردد تھا یا بیٹا اگر اس کے لیے آمادہ نہیں تو اس کی عملی تعبیر سے عذر کا پہلو نکالنے کا کوئی تصور تھا، بلکہ اس مشورے میں کئی حکمتیں مطلوب تھیں: 1 اللہ تعالیٰ سے دعا تو یہ کی تھی کہ مجھے نیک بخت بیٹا عطا فرما۔تو کیا یہ میری اُمنگوں کے مطابق ہے، اور نیکی میں میرا ہم نوا ہے؟ ہم نوا ہے تو اس سے آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ 2 بشارت ’’غلام حلیم ‘‘ کی تھی انھیں سوال کے جواب سے اس کے حلم وبردباری کا ثبوت مل گیا کہ ایسی وحشت ناک بات سن کر بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ 3 اگر اس بارے اسے پریشانی اور خوف ہو تو اسے تسلی دی جائے اور اللہ کی راہ میں قربان ہونے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔
Flag Counter