میں ہے: ٭ ﴿ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ﴾ [آل عمران: ۳۸] ’’اے میرے رب! مجھے اپنے پاس سے ایک پاکیزہ اولاد عطا فرما۔‘‘ حضرت مریم علیہا السلام سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا تھا: ٭ ﴿ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا ﴾ [مریم: ۱۹] ’’میں تو تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔‘‘ ٭ ﴿ وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً ﴾ [الأنبیاء: ۷۲] ’’اور ہم نے اسے اسحاق اور زائد انعام کے طور پر یعقوب عطا کیا۔‘‘ ٭ ﴿ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَى ﴾ [الأنبیاء: ۹۰] ’’اور اسے یحییٰ عطا کیا۔‘‘ ٭ ﴿ وَوَهَبْنَا لِدَاوُودَ سُلَيْمَانَ ﴾ [صٓ: ۳۰] ’’اور ہم نے داود کو سلیمان عطا کیا۔‘‘ اس کا اطلاق گو بھائی پر بھی ہوا ہے جیسے فرمایا: ﴿ وَوَهَبْنَا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا ﴾ [مریم: ۵۳] ’’اور ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون نبی بنا کر عطا کیا۔‘‘ مگر یہاں موسیٰ علیہ السلام کی ذات کو کچھ دینے کی بات نہیں بلکہ بھائی کو نبوت دینے کی ہے۔[1] یہ اور اسی نوعیت کی دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے بیٹے کی دعا کرنا درست ہے مگر اس شرط سے کہ وہ نیک اور صالح ہو۔ گویا ولادت سے پہلے اولاد کے نیک |