نامی شخص نے بنائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا، وہ قیامت تک دھنستا چلا جائے گا۔ اُنھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو باندھ دیا۔ زمین و آسمان، پہاڑ اور فرشتے کہنے لگے اے ہمارے رب! تیرا خلیل ابراہیم جلایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں خوب جانتا ہوں اگر وہ تمھیں پکارے تو اس کی مدد کرنا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اے اللہ! آپ آسمان پر اکیلے ہیں میں زمین پر اکیلا آپ کا عبادت گزار ہوں، مجھے اللہ ہی کافی ہے اور وہ اچھا کار ساز ہے۔ سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ جب انھیں آگ میں ڈالا جانے لگا تو بارش کا فرشتہ کہنے لگا: مجھے کب حکم دیا جائے گا کہ میں بارش برساؤں؟ مگر اللہ کا حکم اس سے پہلے پورا ہوگیا۔ بعض حضراتِ سلف سے یہ بھی منقول ہے کہ ابراہیم علیہ السلام منجنیق کے اندر ہوا میں تھے تو جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: آپ کی کوئی حاجت؟ اُنھوں نے فرمایا: آپ سے تو کوئی کام نہیں۔ یہ بھی منقول ہے کہ جب انھیں باندھا جا رہا تھا تو تب آپ یہ فرما رہے تھے: ’’لا إلہ إلا أنت سبحانک رب العالمین، لک الحمد ولک الملک لا شریک لک‘‘ ’’اے اللہ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے جہانوں کے مالک، تیری ہی تعریف، تیری ہی بادشاہت ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں آگ میں ڈالے جانے سے پہلے ان کا آخری بول یہ تھا: ’’حسبي اللّٰہ ونعم الوکیل‘‘[1] حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اسے امام ابو نعیم کی ’’المستخرج‘‘ سے نقل کیا ہے۔ ’’أنھا أول ما قال‘‘ کہ اُنھوں نے سب سے پہلی بات یہی کہی تھی۔ گویا وہ اول و آخر یہی کہے جا رہے تھے: ’’حسبي اللّٰہ ونعم الوکیل‘‘ |