Maktaba Wahhabi

258 - 438
﴿ وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ ﴾ [الأنعام: ۵۹] ’’اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتّا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ نہیں اور نہ کوئی تر ہے اور نہ خشک مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کسب کی طاقت اور اختیار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے ہدایت کی راہ بتلائی ہے۔ اب یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ راہِ ہدایت اختیار کرتا ہے یا گمراہی، وہ شکرگزار بنتا ہے یا ناشکرا: ﴿ إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ﴾ [الدھر: ۳] ’’بلاشبہہ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے اور خواہ ناشکرا۔‘‘ وہ جو راستہ اپنے لیے اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر چلنے کی قوت وطاقت دے دیتا ہے، تاکہ اسے کوئی حسرت نہ رہے۔ یوں اس کا اس پر عمل دراصل اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے۔ ﴿ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا ﴾ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دلیل پر مبنی بات کا تو قوم کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس لیے اُنھوں نے اپنی قوت و شوکت کی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خاموش کرانا چاہا۔ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے یہ واقعات دراصل اپنے اندر موعظت و نصیحت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی کا سامان بھی رکھتے ہیں جیسا کہ
Flag Counter