ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بہ سندِ صحیح مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إن اللّٰہ یصنع کل صانع وصنعتہ۔ )) [1] ’’بے شک ہر صانع اور اس کی صنعت کو بنانے والا اللہ ہے۔‘‘ یہ روایت (( إن اللہ خالق کل صانع و صنعتہ )) کے الفاظ سے بھی مروی ہے۔[2] یہ حدیث سن کر بعض نے یہی آیت تلاوت کی: ﴿ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ﴾ یعنی جس طرح تم مخلوق ہو، تمھارا عمل بھی مخلوق ہے۔ کیوں کہ فعل پر قدرت و قوت من جانب اللہ ہے۔ ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ کا یہی تقاضا ہے۔ انسان اُٹھتا ہے، بیٹھتا ہے، کروٹ لیتا ہے، پہلو بدلتا ہے، آنکھ جھپکتا ہے، قدم اُٹھاتا ہے، ہاتھ بند کرتا اور کھولتا ہے، حتیٰ کہ کوئی بھی حرکت کرتا ہے تو یہ سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قوت کا نتیجہ ہے۔ اس لیے انسان محض فاعل و کا سِب ہے اور اس کا ہر عمل مخلوق ہے۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ لکڑی، پتھر، لوہا، تانبا وغیرہ کا ہی خالق نہیں بلکہ اللہ کی دی ہوئی قوت سے انسان جو اِن اشیاء کی مختلف شکلیں بناتا ہے، یہ اعمال و معمولات بھی مخلوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور وہ اپنی مخلوق کی تمام جزئیات سے واقف ہے۔ جب کہ انسان تو اپنے افعال کی تمام تفصیلات سے واقف نہیں ہوتا ہے حتیٰ کہ اسے اپنے چلنے میں اپنے اقدام اور ان کی رفتار سے آگاہی نہیں ہوتی کہ کتنے قدم اُٹھے، کتنے تیز اور کتنے آہستہ تھے۔ سارا دن کتنی بار آنکھیں جھپکائیں اور کتنی بار مٹھی بند کی اور کھولی۔اس کی لاعلمی کا یہ حال ہے جب کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اس کی ایک ایک حرکت کا علم ہے: |