﴿ وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا ﴾ [الشعراء: ۱۴۹] ’’اور تم پہاڑوں سے تراش کر گھر بناتے ہو۔‘‘ گویا جن کو تم نے خود گھڑا، بنایا اور سنوارا ہے ان کو اپنا معبود بناتے ہو! تمھارے بنانے سنوارنے سے پہلے یہ پتھر یا لکڑی تھے،تمھارے عمل اور کاری گری سے یہ معبود بن گئے! بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علاوہ سب معبود، مشرکین کے بنانے سے بنے ہیں۔ ورنہ وہ تو سب اللہ کی مخلوق ہیں: ﴿ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ﴾ ’’حالانکہ تمھارا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور جن اشیا کو تم (اپنا معبود) بناتے ہو، اُن اشیا کا خالق بھی اللہ ہی ہے۔‘‘ بعض نے کہا ہے: ’’ما‘‘ استفہامیہ تحقیر کے معنی میں ہے، یعنی تمھارا خالق تو اللہ ہے، تم کیا کرتے پھرتے ہو! اور بعض نے کہا ہے کہ’’ما‘‘مصدریہ ہے کہ اللہ ہی تمھارا خالق ہے اورجو تم کرتے ہو اس کا خالق بھی اللہ ہی ہے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ’’یہ مذہب اہلِ سنت کا ہے کہ انسان اور اس کے افعال کا خالق اللہ ہی ہے۔‘‘ مگر حافظ ابن قیم نے فرمایا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہاں ’’ما‘‘ موصولہ ہے۔ علامہ آلوسی نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے کہ اس کے معنیٰ ہیں: ’’خلقکم وخلق الذي تعملونہ‘‘ (تمھیں اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ نے پیدا کیا ہے) اس کو مصدری معنی میں لینے کا بھی گو یہی مفہوم ہے، مگر زیادہ مناسب یہ ہے کہ یہاں ’’ما‘‘ کو موصولہ مانا جائے۔ معتزلہ نے اس آیت کا وہی مفہوم مراد لیا ہے جو پہلے بیان ہو اہے کہ ’’ما‘‘ سے مراد وہ پتھر ہیں جن کو بنا سنوار کر مشرکین اپنے معبود بناتے تھے،یعنی تمھارا اور ان پتھروں کا بھی خالق اللہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نظم کلام کا یہی تقاضا ہے۔ اور اصل کلام یوں ہے: ’’خلقکم والأصنام التي تعملون۔‘‘ |