جا کر پوچھتے ہیں کہ یہ کارستانی تمھاری ہے؟ سورۃ الانبیاء میں اس کی تفصیل ہے،چنانچہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکمت عملی یہ اپنائی کہ چھوٹے چھوٹے تمام بتوں کو تو پاش پاش کر دیا مگر بڑے بت کواپنی حالت ہی میں رہنے دیا۔ اُنھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھ گچھ شروع کی کہ اے ابراہیم ! ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ ظلم تم نے ڈھایا ہے؟ اُنھوں نے بڑی بے نیازی سے ازراہِ مذاق بڑے بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ سب کچھ اس نے کیا ہے۔ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو،اُسی سے پوچھ لو جو بڑا ہے۔‘‘ قوم نے کہا: آپ کو معلوم ہے کہ یہ بولتے نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انھیں جھنجوڑتے ہوئے فرمایا: افسوس ہے تم پر! تمھیں کوئی عقل نہیں کہ تم نے انھیں اپنا معبود بنا رکھا ہے جو اپنا دفاع بھی نہیں کرسکتے! نہ تمھیں نفع پہنچا سکتے ہیں، نہ تمھارا کوئی نقصان کر سکتے ہیں۔ اس بات کا کوئی جواب تو ان کے پاس نہ تھا ’’حمیتِ جاہلیہ‘‘ ان پر غالب آئی تو اُنھوں نے کہا: اپنے معبودوں کی حمایت میں اُٹھو اور ابراہیم کو جلادو: ﴿ قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ ﴾ [الأنبیاء: ۶۸] اگر کچھ کرنا ہے تو یہ کام کرو، یہی اس مسئلے کا حل ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ سازش ناکام بنا دی۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کو طعن و ملامت کے حوالے سے فرمایا گیا ہے: ﴿ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ ﴾ ’’کیا تم اس کی عبادت کرتے ہو جسے تم خود تراشتے ہو؟‘‘ ﴿ تَنْحِتُونَ ﴾ ’’نَحْتٌ‘‘ سے ہے جس کے معنی لکڑی، پتھر یا اس قسم کی سخت چیزوں کو تراشنے کے ہیں۔ قومِ ثمود کے بارے میں فرمایا گیا ہے: |