Maktaba Wahhabi

253 - 438
﴿ فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَزِفُّونَ (94) قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ (95) وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ (96) قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ (97) فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَسْفَلِينَ (98) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۹۸۔ ۹۴] ’’تو وہ دوڑتے ہو ئے اس کی طرف آئے۔ اس نے کہا: کیا تم اس کی عبادت کرتے ہو جسے خود تراشتے ہو؟ حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو۔ اُنھوں نے کہا: اس کے لیے ایک عمارت بناؤ، پھر اسے بھڑکتی آگ میں پھینک دو۔ غرض، اُنھوں نے اس کے ساتھ ایک چال چلنے کا ارادہ کیا تو ہم نے انھی کو سب سے نیچا کر دیا۔‘‘ ﴿ فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَزِفُّونَ ﴾ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کے معبد خانے میں پڑے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا۔ اِدھر ابراہیم علیہ السلام نے یہ کیا، اُدھر قوم عید منا کر واپس پلٹی اور اپنے معبودوں کے سامنے برکت کے لیے رکھے ہوئے پھلوں کوکھانے کے لیے معبد خانے میں داخل ہوئی، وہ حیران و پریشان ہو گئے کہ یہ کیا ماجرا ہے! لگے باتیں کرنے کہ یہ کس ’’ظالم‘‘ کی کارستانی ہے ؟اُنھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سن رکھا تھا کہ وہ ان کی مذمت کرتے ہیں، بلکہ یہ دھمکی بھی اُنھوں نے دی تھی کہ میں تمھارے ان بتوں کے بارے میں کوئی ترکیب بناؤں گا، اس لیے اُنھوں نے سمجھا، ہو نہ ہو یہ کارروائی انھی کی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ وہ ان کی طرف تیز تیز قدموں سے چل نکلے۔ ﴿ يَزِفُّونَ ﴾ یہ ’’زفف‘‘ سے ہے جس کے معنیٰ ہیں: تیز چلنا۔ امام حمزہ کی قراء ت میں یہ ﴿ يُزِفُّونَ ﴾ (’’یاء‘‘ کے ضمہ کے ساتھ) ہے۔ یوں اس کے معنیٰ ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں کو تیز روی پر برانگیختہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ چلو نکلو، اس سے
Flag Counter