طبیعت مضمحل تھی۔ بعض نے کہا ہے کہ بالیمین سے مراد قسم ہے، جو اُنھوں نے اس کام کو سر انجام دینے کے لیے کھائی تھی،جیسا کہ دوسرے مقام پر جناب ابراہیم علیہ السلام کا قول ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: ﴿ وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ ﴾[الأنبیاء: ۵۷] ’’اور اللہ کی قسم !میں ضرور ہی تمھارے بتوں کی خفیہ تدبیرکروں گا، اس کے بعد کہ تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے۔‘‘ قسم کو ’’یمین‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ اس لیے کہ عرب کی عادت تھی جب دوسرے کے سامنے قسم اُٹھاتے تو اس کے داہنے ہاتھ میں اپنا دائیاں ہاتھ تھما دیتے تھے۔ یوں اس آیت کے معنی ہیں: ’’پس وہ ان پر مارتے ہوئے حملہ آور ہوئے اپنی قسم کے مطابق۔‘‘ علامہ قرطبی نے ایک دور کا احتمال یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ’’یمین‘‘ سے مراد عدل ہے۔ ’’یمین‘‘ عدل کے اور ’’یسار‘‘ ظلم کے قائم مقام ہے۔ اسی طرح اطاعت کے لیے ’’یمین‘‘ اور معصیت کے لیے ’’یسار‘‘ ہوتا ہے۔ عہد و میثاق دائیں ہاتھ سے ہوتا ہے۔ قیامت کے روز نیکی کا نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں اور گناہوں کا بائیں ہاتھ میں ہوگا اور آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اس عدل کے مطابق جس کا وعدہ اُنھوں نے یوم میثاق کیا، اسے یہاں پورا کیا اور اللہ کے مقابلے میں بنائے ہوئے معبودوں پر حملہ آور ہوئے۔ مگر یہ تاویل سیاق کلام کے موافق نہیں۔ |