Maktaba Wahhabi

251 - 438
کھاتے کیوں نہیں؟ ﴿ مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُونَ ﴾ ’’آخر تمھیں کیا ہے بولتے کیوں نہیں ہو؟‘‘ یعنی جواب کیوں نہیں دیتے ہو؟ یہ استفسارسوال کے لیے نہیں تھا۔ وہ تو خوب جانتے تھے کہ یہ کھا سکتے ہیں اور نہ ہی بول سکتے ہیں۔ بلکہ قوم نے بھی ابراہیم علیہ السلام سے کہا تھا: ﴿ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاءِ يَنْطِقُونَ ﴾ [الأنبیاء: ۶۵] ’’بلاشبہہ یقینا تُو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں۔‘‘ بلکہ یہ استفسار طنز و مذاق کے طور پر تھا۔ بڑے طمطراق کے ساتھ حقارت کی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا: تم آخر بولتے کیوں نہیں؟ پھر اُنھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ ﴿ فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِ ﴾ ’’ان پر حملہ آور ہوئے، پل پڑے دائیں ہاتھ سے مارتے ہوئے۔‘‘ ’’یمین‘‘ دائیں ہاتھ کو کہتے ہیں۔ یہ ہاتھ قوت و طاقت میں بائیں ہاتھ سے زیادہ ہوتا ہے اور اس کی ضرب بھرپور ہوتی ہے۔ گویا ابراہیم علیہ السلام پوری قوت اور بھرپور طریقے سے ان پر حملہ آور ہوئے اور انھیں پاش پاش کر دیا۔ پہلے سورت الصّٰفّٰت میں کفار کا قول اپنے سرداروں کے حوالے سے ذکر ہواہے: ﴿ قَالُوا إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنَا عَنِ الْيَمِينِ ﴾ [الصافات: ۲۸] یہاں بھی بعض نے ’’الیمین‘‘ کے معنی قوت و طاقت کے کیے ہیں۔ عربی شاعر نے کہا ہے ؎ إذا ما رایۃ رفعت لمجد تلقاھا عرابۃ بالیمین ’’جب شرف و مجد کا جھنڈا بلند کیاجاتا ہے تو عرابہ اس کاپوری قوت سے مقابلہ کرتا ہے۔‘‘ زیر تفسیر آیت میں یہاں بھی لفظ ’’یمین ‘‘ سے قوت و طاقت مراد ہے۔ اور یہ اسلوب بجائے خود بتلاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس وقت بیمار تھے نہ ہی ان کی
Flag Counter