ان کے حنفی ہونے کے ناتے متاخرین علمائے احناف نے ا ن کا ذکر کیا ہے اور کلامی اور فقہی مباحث میں ان کے مقام و مرتبہ کو بیان کیا ہے، مگر حدیث میں ان کا اختصاص یا اس حوالے سے ان کی رحلاتِ علمیہ اور خدمات کا کہیں ذکر نہیں،اس لیے اُنھوں نے بھی اگر صحیحین کی حدیث کا انکار کیا ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ ہم پہلے بھی عرض کر آئے ہیں کہ بعض حضرات نے لفظ ’’سقیم‘‘ کو اس کے حقیقی معنی میں سمجھا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے نڈھال اور ناتواں ہونے پر بھی سقیم کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہ ہر انسان کو کوئی نہ کوئی عارضہ ہوتا ہی ہے اس لیے وہ واقعی سقیم تھے۔ مگر اس پر یہ اعتراض ہوتاہے کہ قوم نے کیا انھیں نڈھال وغیرہ سمجھ کر ہی نظر انداز کر دیا تھا یا فی الواقع بیمار سمجھ کر کہ یہ ساتھ نہیں جا سکتے؟ ’’سقیم‘‘ کے لفظ سے جس جسمانی بیماری کا تاثر ہے اس کے برعکس ناتوانی اور کمزوری تعریض و توریہ ہی ہو سکتا ہے۔ حقیقت بہر حال یہ نہ تھی۔ ساتھ نہ جانے کی کوئی بھی نوعیت ہو اس پر پھر یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ قوم کے چلے جانے کے معاً بعد اُنھوں نے پوری قوت سے، جیسا کہ آگے آرہا ہے،[1] بتوں کو پاش پاش کیسے کر دیا؟ اس لیے صحیح یہی ہے کہ ’’سقیم‘‘ سے توریہ کے طور پر مستقبل میں بیمار ہونا مراد ہے یا مجازاً روحانی بیماری مراد ہے۔اور یہ حقیقی جھوٹ نہیں جو کہ مذموم ہے۔ |