حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے فرزند فوت ہو گئے، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آئے اور بیٹے کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’أرجو أن یکون قد استراح‘‘ ’’مجھے اُمید ہے یقینا وہ راحت میں ہے۔‘‘ یہ بھی تعریض و توریہ ہی تو ہے۔ اس لیے زندگی میں اس سے نہ تو بچا جا سکتا ہے اور نہ ہی تعریض کرنے والے کو جھوٹا کہا جاتا ہے تاہم اس پر لغوی طور پرکذب کا اطلاق بھی ہوتاہے۔ یہی بات حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’مفتاح دار السعادۃ‘‘[1] ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’الجواب الصحیح‘‘[2] ، حافظ ابن حجر نے فتح الباری، علامہ قرطبی اور علامہ آلوسی وغیرہ نے اپنی اپنی تفسیر میں کہی ہے۔ علامہ آلوسی جو عموماً امام رازی کے اقوال بغیر نام لیے ’’قال الإمام‘‘ کہہ کر ذکر کرتے ہیں،اُنھوں نے اس مبحث میں امام رازی رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ حدیث سے تعلق کم ہونے کی وجہ سے انھوں نے صحیحین کی حدیث کا یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا ہے کہ اس کے راوی کو جھوٹا کہنا آسان ہے بہ نسبت نبی کو جھوٹا کہنے کے۔[3] یہ حدیث ایک راوی سے تو ہے نہیں،آخر کس کس کو جھوٹا کہا جائے گا؟ اس کی باقی مرویات کا مرتبہ کیا رہ جائے گا؟ امام رازی کی طرح شیخ ماتریدی کے انکارکو بھی دراصل حدیث سے عدمِ ممارست کا نتیجہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ بلکہ حیران کن بات تو یہ ہے کہ تاریخ اور تراجم کی اُمہات الکتب میں کہیں علامہ ماتریدی کا ذکر خیر نہیں، مثلاً: کامل ابن اثیر، وفیات الاعیان، السیر، تاریخ اسلام، العبر، فوات الوفیات، البدایہ، شذرات الذہب، الانساب، تاریخ بغداد، تاریخ دمشق، اخبار اصبہان، العقد الثمین وغیرہ۔ |