﴿ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا ﴾ [الأحزاب: ۳۰] ’’اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کھلی بے حیائی (عمل میں) لائے گی اس کے لیے عذاب دو گنا بڑھایا جائے گا او ریہ بات اللہ پر ہمیشہ سے آسان ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: ﴿ وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا ﴾ [الأحزاب: ۳۱] ’’اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک عمل کرے گی اسے ہم اس کا اجر دوبار دیں گے اور ہم نے اس کے لیے باعزت رزق تیار کر رکھا ہے۔‘‘ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اسی موضوع پر ’’مطلع البدرین في من یؤتی أجرہ مرتین‘‘ کے نام سے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، جس میں ان اعمال کا ذکر کیا ہے جن پر دہرا اَجر ملتا ہے اور ان اشخاص کا بھی تذکرہ کیا ہے جودو گنا اجر کے مستحق ہیں۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہم السلام کا یہ فرمان کہ میں بیمار ہوں، تعریض کے طور پر تھا اور اسی اعتبار سے اس پر کذب کا اطلاق ہوا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُنھوں نے اپنے آپ کو روحانی مریض قرار دیا ہو اور قوم سمجھی کہ یہ فی الموقع بیمار ہیں۔ تعریض کی ایسی مثالیں اس کے علاوہ بھی قرآن پاک اور احادیث میں پائی جاتی ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے کارندوں نے اخوان یوسف سے کہا تھا: ﴿ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ ﴾ [یوسف: ۷۰] ’’اے قافلے والو! بلاشبہہ تم یقینا چور ہو۔‘‘ |