حضرت ابراہیم علیہ السلام صدیق تھے مگر ان کے علوِ مرتبت کے اعتبار سے یہ تصدیق بھی فروتر تھی۔ ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے: ’’حسنات الأبرار سیئات المقربین‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاہے: ﴿ وَالَّذِي أَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ ﴾ [الشعراء: ۸۲] ’’اور (میرا رب) وہ جس سے میں طمع رکھتا ہوں کہ وہ جزا کے دن مجھے میری خطا بخش دے گا۔‘‘ غور فرمائیے! وہ خطا تھی ہی کیا، جس کی بخشش کی انھیں اُمید تھی؟ سیدِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( إنہ لیغان علی قلبي وإني لأستغفر اللّٰہ في الیوم مائۃ مرۃ )) [1] ’’بے شک حال یہ ہے کہ میرے دل پر پردہ کر دیا جاتا ہے اور میں دن میں سو سو بار استغفار کرتا ہوں۔‘‘ حالانکہ آپ تو ہر آن اللہ کی یاد میں رہتے تھے۔ جیسا کہ سیدہ صدیقہ کائنات عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے تھے۔[2] علمائے کرام نے لکھا ہے کہ یہ پردہ اور یہ غفلت اُمت کو سمجھانے، بجھانے، سماجی و معاشرتی اور مدارتی معاملات کو نبٹانے کے دوران میں ہوئی یا ترکِ اولیٰ کے اعتبار سے تھی۔ یہ پردہ (معاذ اللہ) کسی خطا یاغلطی کا نتیجہ نہ تھا کہ اس پر آپ دن میں سو سو بار استغفار کرتے تھے۔ ایک عمل کا اجر و وِزر عامل کے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے بھی ہوتا ہے اور عمل کے لحاظ سے بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات سے فرمایا ہے: |