نہیں ہوتا بلکہ یہ مختلف معانی میں مستعمل ہے۔ چنانچہ علامہ زبیدی نے ذکر کیاہے کہ علامہ ابن الانباری نے اس پر ایک مستقل رسالہ لکھاہے اور کہا ہے کہ ’’کذب‘‘ کا اطلاق پانچ طرح کی بات پر ہوتا ہے: 1 خلاف واقعہ بیان کرے یا جو کچھ سنا ہے اس کے برعکس بیان کرے۔ (یہ جھوٹ ہے، جو کبیرہ گناہ ہے اور مرو ۃ کے منافی ہے) 2 ایسا قول جو بہ ظاہر کذب ہو مگر حقیقتاً کذب نہ ہو بلکہ واقعہ کے مطابق ہو۔ فرماتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کذب کی نسبت اسی معنی میں ہے کیوں کہ آپ کے تینوں اقوال بہ ظاہر خلاف واقعہ تھے، مگر حقیقتاً صحیح اور درست تھے۔ 3 ’’کذب‘‘ کا اطلاق کلامِ عرب میں خطا و غلطی پر بہ کثرت ہوتا ہے۔ حضرت ابو محمد مسعود رضی اللہ عنہ بن زید نے کہا کہ وتر واجب ہیں تو حضرت عبادہ بن صامت نے فرمایا: ’’کذب أبو محمد‘‘ یہاں بھی جھوٹ نہیں بلکہ مراد ہے کہ ابو محمد نے خطا کی ہے۔ 4 اُمید خاک میں مل جائے تو اس پر کذب کا اطلاق ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ انْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ ﴾ [الأنعام: ۲۴] کا مفہوم یہ ہے: ’’کیف بطل علیہم أملہم‘‘ یعنی دیکھو اُن کی اُمید کیسے باطل ہو گئی، جو وہ اپنے معبودوں کی شفاعت کے بارے میں لگائے ہوئے تھے۔ 5 کذب کا لفظ بمعنی الاغراء، یعنی کسی کو برانگیختہ کرنے اور وجوب و لزوم کے لیے بھی بولتے ہیں۔[1] جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کذب کا اطلاق ایک ہی معنی (جھوٹ) پر نہیں ہوتا بلکہ تعریض و توریہ اور دیگر مفاہیم پر بھی ہوتا ہے۔ |