Maktaba Wahhabi

243 - 438
حالانکہ ان سے پہلے کبار ائمہ اُمت کو یہ حدیث قرآن پاک کے خلاف محسوس ہوئی نہ ہی اسے اُنھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظمت و عصمت کے منافی گردانا۔ بدیہی سی بات ہے۔ ان تمام ائمہ کبار کے بارے میں یہ قطعاً تصور نہیں کیا جا سکتا کہ انھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظمت کا احساس نہ تھا تو یہ احساس بہت بعد میں بعض حضرات کو ہوا۔ پھر یہی ایک حدیث نہیں، بلکہ حدیثِ شفاعت میں خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے کہ جب اولادِ آدم قیامت کے روز شفاعت کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوگی اور اللہ ذوالجلال والاکرام کے دربار میں ان سے شفاعت کی تمنا کرے گی تو وہ فرمائیں گے: ’’إني قد کنت کذبت ثلاث کذبات‘‘[1] ’’ مجھ سے تین باتیں خلاف واقعہ ہوئی تھیں۔‘‘ یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ’’صحیح بخاری‘‘[2] اور صحیح مسلم میں منقول ہے۔ امام بخاری نے اسے بھی مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اس باب میں دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی روایات مروی ہیں جیسا کہ حافظ ابنِ حجر نے ذکر کیا ہے۔[3] اس لیے کسی ایک راوی کی نہیں، بہت سے راویوں کی بات ہے کہ اس روایت کی تغلیط کرنے والے کس کس راوی کی تغلیط کریں گے؟ پھر یہی نہیں بلکہ ان راویوں کی بیان کی ہوئی دوسری روایات کی حقیقت کیا رہ جاتی ہے؟ ائمہ کبار نے ’’صدیقاً نبیاً‘‘ اور ان احادیث کے مابین کوئی تناقض نہیں سمجھا اور نہ ہی(معاذ اللہ) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کسی نے ’’کذب‘‘ کی نسبت کی ہے۔ کیوں کہ وہ سمجھتے تھے ’’کذب‘‘ کا اطلاق ہمیشہ خلاف واقعہ بات اور جھوٹ پر ہی
Flag Counter