معلوم ہو جانے پر مخاطب اسے کذب کہتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ’’إني سقیم‘‘ کہنے کا مطلب بھی یہ تھا کہ ’’إني سأسقم‘‘ مگر لوگ سمجھے کہ یہ بیمار ہیں۔ اس لیے وہ انھیں چھوڑ کرچلے گئے۔حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اسی اسلوب میں ’’کذب‘‘ کا اطلاق ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لم یکذب إبراہیم إلا ثلاثۃ کذبات، ثنتین منھن في ذات اللّٰہ، قولہ ’’إني سقیم‘‘ وقولہ ’’بل فعلہ کبیرہم‘‘ و قولہ لسارۃ ’’أختی‘‘ )) [1] امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ روایت چھ مختلف مقامات پر ذکر کی ہے۔ شیخین کے علاوہ یہ روایت ترمذی، ابو داود، مسند احمد وغیرہ کتب احادیث میں مروی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین بار کے علاوہ کبھی خلافِ واقعہ بات نہیں کہی، ایک جب اُنھوں نے فرمایا: میں بیمار ہوں۔ دوسری جب ان سے پوچھا گیا کہ ان بتوں کے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ہے؟ تو اُنھوں نے فرمایا: یہ ان کے بڑے (بت) نے کیا ہے۔ اور تیسری جب اُنھوں نے اپنی زوجہ محترمہ سارہ کے متعلق فرمایا: یہ میری بہن ہے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ سب سے پہلے امام فخر الدین محمد بن عمر بن حسین رازی نے دبے لفظوں میں اس حدیث کے انکار کی کوشش کی، حالانکہ ان سے بہت عرصہ پہلے امام ابو منصور محمد بن محمد الماتریدی (م ۳۳۳ھ) نے اپنی تفسیر میں اس حدیث کی صحت سے انکار کیا ہے ان کے بعد بعض دیگر حضرات نے بھی اس حدیث کو قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں لقب ’’صدیقاً نبیًا‘‘ کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی صحت سے انکار کیا ہے۔ |