Maktaba Wahhabi

241 - 438
کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام فی الواقع بیمار تھے؟ اگر وہ فی الواقع بیمار تھے تو قوم کے چلے جانے کے معاً بعد اُنھوں نے بتوں کو پاش پاش کیسے کر دیا؟ اس بارے میں مختلف آراء ہیں: 1 آپ فی الواقع بیمار تھے۔ بعض نے تو سقیم سے طعین یعنی طاعون کی بیماری مراد لی ہے۔ مگر ان آثار کی کوئی سند قابل اعتبار نہیں۔ 2 دوسرا قول جو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے، وہ یہ کہ اُنھوں نے فرمایا تو تھا کہ ﴿ إِنِّي سَقِيمٌ ﴾ میں بیمار ہوں، مگر اس سے مستقبل میں بیمار ہونا مراد لیا تھا۔ یعنی ’’إني سأسقم‘‘ ان کی مراد تھی۔ حافظ ابن حجر نے کہا ہے: اسم فاعل اکثر مستقبل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔[1] جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ﴾ [الزمر: ۳۰] ’’بے شک تو مرنے والا ہے اور بے شک وہ بھی مرنے والے ہیں۔‘‘ یہاں بھی ’’میت‘‘ سے مراد ’’ستموت ‘‘ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب فوت ہونے والے ہیں۔ ’’میتون‘‘ سے مراد سیموتون ہے کہ عن قریب وہ بھی مرنے والے ہیں۔ یہ قطعاً مراد نہیں کہ وہ اور آپ اب مرے ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی تعریض و توریہ کے انداز میں ’’إني سقیم‘‘ فرمایا مگر ان کی مراد ’’إني سأسقم‘‘ تھی۔ توریہ کا مطلب یہ ہے کہ کلام میں ایسا اسلوب اختیار کیا جائے کہ مخاطب متکلم کے اصل مقصد کو سمجھنے کی بجائے اسے اپنے مطلب و مقصد کے مطابق سمجھ کر مطمئن ہو جائے حالانکہ وہ متکلم کا منشا و مطلوب نہیں ہوتا۔ ایسا کلام اپنے اصلی تناظر میں سچا ہوتا ہے مگر مخاطب کے فہم کے اعتبار سے اس پر کذب کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ بلکہ حقیقت
Flag Counter