’’علم نجوم اتنا سا حاصل کر و جس سے تم برّ و بحر کے اندھیروں میں راستہ معلوم کر سکو، پھر رُک جاؤ۔‘‘ علامہ آلوسی نے سورت الصّٰفّٰت کی اسی آیت کے تحت علم نجوم پر بڑی طویل بحث کی ہے اور متعدد مثالیں پیش کی ہیں کہ علم نجوم کے مطابق جیسے واقعات رونما ہونے چاہییں تھے حقیقت میں اس کے برعکس ہوا ہے۔ اور اس علم کے جواز پر جو دلائل ذکر کیے جاتے ہیں بڑی شرح و بسط سے ان کے جوابات بھی دیے ہیں۔[1] علامہ غزالی نے بھی اس پر مفصّل بحث کی ہے اور اس کی ممانعت کی متعدد حکمتیں ذکر کی ہیں۔[2] ﴿ إِنِّي سَقِيمٌ ﴾ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: میں بیمار ہوں۔ ’’سقم‘‘ جسمانی بیماری کو کہتے ہیں۔ جب کہ لفظ ’’مرض‘‘ جسمانی اور قلبی دونوں بیماریوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: ﴿ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ ﴾ [البقرۃ: ۱۰] ’’ان کے دلوں ہی میں ایک بیماری ہے۔‘‘[3] البتہ مجازی طور پر قلب سقیم، کلام سقیم، فہم سقیم بھی کہا گیا ہے۔[4] حضرت یونس علیہ السلام کو جب مچھلی کے پیٹ سے اللہ تعالیٰ نے نکالا، تب ان کے بارے میں فرمایا: ﴿ فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ ﴾ [الصّٰفّٰت: ۱۴۵] ’’پھر ہم نے اسے چٹیل میدان میں پھینک دیا اس حال میں کہ وہ بیمار تھا۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ وہ پرندے کے بچے کی طرح، جس پر بال نہیں ہوتے، ہو گئے تھے۔ یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے آپ کو سقیم کہا کہ میں بیمار ہوں تمھارے ساتھ جا کر موج میلے میں شریک نہیں ہو سکتا۔ |