Maktaba Wahhabi

235 - 438
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( إیاکم والظن فإن الظن أکذب الحدیث )) [1] ’’اپنے آپ کو ظن و گمان سے بچاؤ کیوں کہ ظن سب سے بڑا جھوٹ ہے۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب یہ فرمایا کہ ﴿فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ تو ان کی رائے کو ظن کہہ کر اشارہ فرما دیا کہ تمھارا جو بھی گمان ہے، وہ سب جھوٹ اور جہل پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان کا یہ ظن، ذات کے اعتبار سے، یا صفات کے اعتبار سے یا ان کے ساتھ معاملہ کرنے کے اعتبار سے ہے اور تینوں نوعیتوں کو شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک کافر و مشرک کا اللہ تعالیٰ کے بارے میں گمان بہر نوع جھوٹ اور جہل پر ہی مبنی ہوتا ہے علم و معرفت پر نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ فرمان اسی طرح جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ (6) الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ (7) فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ ﴾ [الإنفطار: ۶۔ ۸] ’’اے انسان! تجھے تیرے نہایت کرم والے رب کے متعلق کس چیز نے دھوکا دیا؟ وہ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر تجھے درست کیا، پھر تجھے برابر کیا۔ جس صورت میں بھی اس نے چاہا تجھے جوڑ دیا۔‘‘ گویا تمھیں پیدا اللہ نے کیا، اسی نے پروان چڑھایا، اسی نے رزق کا انتظام کیا، وہی تمھارا مالک ہے اس کے بارے میں تمھارا کیا گمان ہے؟ شکر اس کا ہونا چاہیے یا ان کا جنھوں نے نہ تمھیں پیدا کیا نہ ہی وہ تمھاری موت و حیات کے مالک ہیں۔ بلکہ وہ مخلوق ہیں۔ اے انسان! تجھے یہ دھوکا کس نے دیا ہے؟
Flag Counter