﴿فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ یہ تمھارے جھوٹے گھڑے ہوئے معبود ہیں کیا کائنات کا رب بھی تم انھی کو تسلیم کرتے ہو؟ تو رب العالمین کے بارے میں تمھارا کیا گمان ہے؟ کیوں کہ عبادت کے لائق تو وہی ہے جو رب العالمین ہے۔ رب العالمین کے بارے میں کیا تم اس بدگمانی میں مبتلا ہو کہ وہ اکیلا تمھاری ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا؟ یا وہ تمھاری حفاظت سے قاصر ہے؟ یا وہ تمھاری پکار کو نہیں سنتا کہ تم نے اس تک بات پہنچانے کے لیے بطورِ وسیلہ اور واسطہ یہ معبود بنا لیے ہیں؟ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بارے میں دنیا میں تمھاری اسی بدگمانی نے تمھارے لیے معبودانِ باطلہ کو اپنانے کی راہ ہموار کی ہے اور اب قیامت کے روز تمھارا کیا خیال ہے، وہ تمھارے ساتھ خیر کا معاملہ کرے گا اور اپنی رحمت سے تمھیں نوازے گا؟ قطعاً نہیں تم عبادت کرو ان بتوں کی اور اُمید رکھو اللہ تعالیٰ سے کہ جیسے دنیا میں اس نے تمھیں اپنے انعامات سے نوازا ہے اسی طرح وہ قیامت میں بھی رحم و کرم کا معاملہ فرمائے گا۔ ہر گز نہیں وہ بڑا غیور ہے اسے اپنی الوہیت و ربوبیت میں کسی کی شراکت گوارا نہیں جو بھی یہ حماقت کرے گا وہ اسے جہنم رسید کرے گا۔ ’’الظن‘‘ دراصل کسی چیز کی علامت محسوس کرکے جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے اسے ’’ظن‘‘ کہتے ہیں۔ جب یہ علامت قوی اور بیّن ہو تو اس سے علم کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ اور اگر وہ کمزور ہو تو نتیجہ وہم کی حد سے تجاوز نہیں کرتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہاں ’’رب العالمین‘‘ کے بارے میں ان کے ’’ظن ‘‘ کا سوال کیا ہے کہ رب العالمین کو چھوڑ کر تم نے اپنا معبود اِن بتوں کو بنایا ہے تو ’’رب العالمین‘‘ کے بارے میں تمھارا ظن کیا ہے؟ ظن کا اکثر و بیشتر اطلاق غلطی اور خطا پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ﴾ [الحجرات: ۱۲] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بہت سے گمان سے بچو یقینا بعض گمان گناہ ہیں۔‘‘ |