معبودان باطلہ کو ’’افک‘‘اور ’’افترا‘‘ کہا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہی بات ایک اور مقام پر یوں بیان ہوئی ہے: ﴿إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ﴾ [العنکبوت: ۱۷] ’’تم اللہ کے سوا چند بتوں ہی کی تو عبادت کرتے ہو اور تم سراسر جھوٹ گھڑتے ہو۔‘‘ انھیں معبود کہنا تمھارا جھوٹ ہے۔ اسی حقیقت کا بیان ایک اور مقام پر یوں ہے: ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ ﴾ [النجم: ۲۳] ’’یہ (بت) چند ناموں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں، جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، ان کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہیں فرمائی۔ یہ لوگ صرف گمان کے اور ان چیزوں کے پیچھے چل رہے ہیں جو ان کے دل چاہتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کا حکم دیا ہے اور اسی کی عبادت کا حکم سب انبیا علیہم السلام نے دیا اور اللہ کی سب کتابوں میں بھی اسی کا حکم ہے۔ اس کے مقابلے میں جو معبود ہیں وہ سب باطل ہیں اور سراسر جھوٹ ہیں۔ علامہ زمخشری وغیرہ نے فرمایا ہے کہ ’’إفکاً‘‘ یہاں مفعول لہ ہے۔ گویا عبارت یوں ہے: ’’أتریدون اٰلہۃ دون اللّٰہ إفکًا‘‘ زیر تفسیر آیت میں مفعول لہ (افکاً) کو پہلے ذکر کرنے میں اشارہ ہے کہ یہ تمام معبود اور ان کی پوجا پاٹ جھوٹ و فریب پر مبنی ہے۔ اس کی ایک ترکیب یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ ’’افکا‘‘ مفعول بہ ہے یعنی ’’ أتریدون إفکًا آلھۃ دون اللّٰہ‘‘ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حال بھی ہو سکتا ہے، یعنی ’’ أتریدون آلھۃ من دون اللّٰہ آفکین‘‘ |