بلکہ اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں کو اور تمھارے اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘ کہ عمل کیسا ہے؟ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہے یا نہیں؟ اور یہ عمل اخلاص پر مبنی ہے یا نہیں؟ اس لیے سنوارنے کی چیز دل اور عمل ہے، مگر ہماری کوشش شکل و صورت سنوارنے میں ہوتی ہے، اس کے لیے مال خرچ کرتے ہیں اور ایک ایک داغ دھبہ مٹانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اللہ کے ہاں اہمیت دل کی ہے، شکل و صورت کی نہیں۔ دل اغیار کی محبت سے صاف اور اعمال مرتبہ احسان کے آئینہ دار ہوں۔ انھی دونوں کے بارے میں حکم فرمایاگیاہے: ﴿فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ﴾ [الکہف: ۱۱۰] ’’پس جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی اُمید رکھتا ہو تو لازم ہے کہ وہ عمل کرے نیک عمل اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ ﴾ [البینۃ: ۵] ’’اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکات دیں اور یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل کے اسی اخلاص اور اُن کی للہیت کی گواہی اللہ تبارک و تعالیٰ نے دی ہے اس لیے کہ ان کا دل تمام آلودگیوں سے پاک صاف تھا۔ اس میں صرف اللہ کی محبت رچی بسی تھی۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے: ’’قلبہ للرحمان، مالہ للضیفان، ولدہ للقربان، و جسدہ للنیران‘‘ |