ہے، خبردار! یہ دل ہے۔‘‘ یا یوں سمجھیے کہ دل بہ منزلہ بادشاہ کے ہے اور جسم کے باقی اعضاء اس کا لاؤ لشکر ہیں۔ یہ لشکر اپنے بادشاہ کی اطاعت کرتا ہے اور اس کے احکام کی تعمیل کرتا ہے کسی قسم کی مخالفت نہیں کرتا۔ اگر بادشاہ صحیح ہوگا تو اس کا لشکر بھی صحیح ہوگا اگر بادشاہ ہی غلط اور فسادی ہوگا تو اس کا لشکر بھی فسادی ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا ہے: ’’القلب ملک ولہ جنود، فإذا صلح الملک صلحت جنودہ، وإذا فسد الملک فسدت جنودہ‘‘[1] ’’دل بادشاہ ہے اور اس کا ایک لشکر ہے۔ جب بادشاہ درست ہوگا تو اس کا لشکر بھی درست ہوگا اور اگر بادشاہ برا ہوگا تو اس کا لشکر بھی برا ہوگا۔‘‘ بلکہ دل کے بگاڑ سے اعضائے جسم ہی نہیں بلکہ سارا جہاں بگڑ جاتا ہے۔ اگر دل میں شرک و بدعت، حسد و بغض، تکبر و عناد، حُبِ مال و جاہ کے بت سمائے ہوں تو توحید و سنت، محبت و پیار، عاجزی و انکساری، خیر خواہی و قربانی اور امانت و دیانت کے پھول نہیں کھلیں گے، بلکہ دنگا و فساد، قتل و غارت، لوٹ مار، کرپشن، بددیانتی، ملاوٹ، دھوکا، فراڈ، فریب اور چوری کی گرم بازاری ہوگی۔ اس لیے اصل دل کی اصلاح کی ضرورت ہے، کیونکہ فساد اور بگاڑ کی جڑ دل ہے یہ درست ہو تو سارے معاملات درست ہو جاتے ہیں، دنیا کے بھی اور آخرت کے بھی۔ جسم میں فاسد مادہ سرایت کر جانے کے نتیجے میں کھجلی یا زخم یا پھوڑے پھنسیاں ہو جائیں تو اس کا علاج مرہم پٹی سے نہیں مُنضج دے کر فاسد مادہ خارج کر دینے سے ہوگا۔ یہی معاملہ دل کا ہے یہ اگر شرک و بدعت کبر و نخوت، حسد و بغض اور حُبِ مال و جاہ سے اٹا پڑا ہو تو کبھی توحید کی بہار نہیں آئے گی، معاشرے میں کبھی |