’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔‘‘ یہ حدیث حضرت انس، جابر، عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی خوف محسوس کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دل رحمان کی دو انگلیوں کے مابین ہے، جسے وہ جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔‘‘ بلکہ ترمذی میں ہے کہ شہر بن حوشب نے سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے گھر ہوتے ہیں تو اکثر کیا دعا پڑھتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا پڑھتے ہیں: (( یا مقلب القلوب۔۔۔ الخ )) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ’’راسخون في العلم‘‘ کی یہ دعا ذکر فرمائی ہے: ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ﴾ [آل عمران: ۸] ’’اے ہمارے رب! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر، اس کے بعد کہ تُو نے ہمیں ہدایت دی، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بے شک تُو ہی بے حد عطا کرنے والا ہے۔‘‘ دل کی یہ تبدیلی اور کیفیت ہر بندۂ مومن اپنی عبدیت کی بنا پر محسوس کرتا ہے۔ مگر ابراہیم علیہ السلام وہ ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ ہمارے پاس قلب سلیم لے کر آئے۔ ’’سلیم‘‘ یہ ’’السَلم و السلامۃ‘‘ سے ہے، جس کے معنی ہیں ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنا۔ یعنی ان کا دل ہر گناہ سے پاک اور صاف تھا۔ شرک سے، شک و ریب سے، حسد و کینہ سے، دھوکا و فریب سے، تکبر و نخوت سے حتیٰ کہ بری نیت سے بھی پاک و صاف اور دنیوی آلایشوں سے بھی پاک، نہ حبِ مال، نہ حبِ جاہ، نہ حبِ آل و اَولاد۔ بس اسی کی محبت، اسی کا خوف اور ڈر دل میں رچا بسا |