جناب میں خالص دل کا تحفہ پیش کیا۔ ’’قلب‘‘ کے معنی ہیں پھیرنا، الٹا کرنا۔ اسی سے ’’قلب الثوب‘‘ (کپڑا اُلٹا کرنا) ہے۔ اسی سے ’’انقلاب‘‘ ہے جس کے معنی پھر جانے، تبدیل ہوجانے کے ہیں۔ انسان کے دل کو ’’قلب‘‘ اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ جسم میں الٹا لٹکا ہوا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ وہ کثرت سے اُلٹ پلٹ ہوتا ہے۔ دل کی اسی تبدیلی اور اس کے الٹ پلٹ ہونے کے بارے میں سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مثل القلب کریشۃ بأرض فلاۃ تقلبھا الریاح ظھرا لبطن )) [1] ’’دل کی مثال پَر کی مانند ہے جو بیابان میں پڑا ہے، ہوائیں اسے پیٹھ سے پیٹ کی طرف (اوپر نیچے) پھیرتی ہیں۔‘‘ ایک اور حدیث میں ہے: (( لقلب ابن آدم اشد انقلابا من القدر إذا اجتمعت غلیانا )) [2] ’’آدم کے بیٹے کا دل ہنڈیا سے زیادہ منقلب ہوتا ہے جب وہ بھری ہوئی جوش مارتی ہے۔‘‘ اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ آدم کے بیٹے کے دل کی مثال چڑیا کی طرح ہے، یہ دن میں سات بار بدلتا ہے۔[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا پڑھتے تھے: (( یا مقلب القلوب! ثبت قلبي علی دینک )) [4] |