اور یہ دین، دین توحید ہے۔ اسی کا تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو حکم دیا گیا۔ اس اعتبار سے سب انبیائے کرام علیہم السلام کا ایک ہی گروہ اور ایک ہی جماعت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے: (( الأنبیاء إخوۃ لعلّات أمھاتہم شتی ودینہم واحد )) [1] البتہ بعض تشریعی احکام میں فرق رہا ہے۔ جیسا کہ سورۃ المائدہ میں فرمایا: ﴿ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ﴾ [المائدۃ: ۴۸] ’’تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمھیں ایک اُمت بنا دیتا اور لیکن تاکہ وہ تمھیں اس میں آزمائے جو اس نے تمھیں دیا، پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔‘‘ ﴿ وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ ﴾ میں مشرکین مکہ کی تردید بھی ہے۔ جو کہتے تھے کہ ہم دینِ ابراہیمی پر ہیں۔ ان کی تردید میں جیسے فرمایا گیا ہے: ﴿ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴾ [البقرۃ: ۱۳۵، آل عمران: ۶۷] ’’ابراہیم مشرکوں سے نہ تھا۔‘‘ یہاں یہ کہہ کر کہ وہ نوح علیہ السلام کے گروہ میں سے تھے، ان کی تردید کی ہے کہ جس طرح دعوت توحید میں حضرت نوح علیہ السلام نے جان کھپا دی تھی اسی طرح ابراہیم علیہ السلام نے بھی سب صعوبتیں برداشت کرلیں مگر ان سے دامن توحید چھوٹنے نہ پایا۔ ﴿ إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ﴾ ’’جب وہ اپنے رب کے پاس آیا بے روگ دل لے کر۔‘‘ یعنی اس نے اپنے دل کو اللہ کے لیے خالص کر لیا اور اللہ تعالیٰ کی |