’’اور یاد کرو جب اس نے تمھیں عاد کے بعد جانشین بنایا۔‘‘ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: ﴿ وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْكُمْ بِبَعِيدٍ ﴾[ھود: ۸۹] ’’اور اے میری قوم ! میری مخالفت تمھیں اس کا مستحق ہرگز نہ بنا دے کہ تمھیں ان جیسی مصیبت آپہنچے جو نوح کی قوم، یا ہود کی قوم، یا صالح کی قوم کو پہنچی اور لوط کی قوم (بھی) ہرگز تم سے کچھ دور نہیں ہے۔‘‘ حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم لوط کو اپنی قوم کے قریب ذکر کیا ہے حضرت لوط علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معاصر اور ان کے بھتیجے تھے۔ یوں یہ سب حضرت نوح علیہ السلام کے گروہ میں شامل ہیں۔ علامہ زمخشری نے کہا ہے کہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے مابین دو ہزار سات سو چالیس سال کا عرصہ ہے۔ اس عرصہ میں قرآن مجید میں صرف دو انبیا کا ذکر ہوا ہے۔ اس طویل عرصہ میں اور انبیائے کرام علیہم السلام بھی آئے ہوں گے۔ واللہ أعلم۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا دین ایک ہی تھا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ﴾ [الشوریٰ: ۱۳] ’’اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ہم نے تیری طرف کی اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا۔‘‘ |