جو جنگ جمل و صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مدقابل تھے ان پر سب و شتم کرتے ہیں۔درحقیقت یہ شیعہ نہیں بلکہ رافضی ہیں۔ اس کی تفصیل کی یہاں گنجایش نہیں۔ غالی رافضیوں نے لکھا ہے کہ ’’شب معراج سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو شیعان علی کے نورانی چہرے چودھویں رات کے چاند جیسے دکھائی دیے تو اُنھوں نے دعا کی: مجھے بھی شیعانِ علی میں شامل کیا جائے،چنانچہ ان کی دعا قبول ہوئی۔ ﴿ وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ ﴾ میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ رافضیوں کی اس تعبیر کا ذکر شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے تحفہ اثنا عشریہ میں دو مقام پر کیا ہے۔[1] یہ تعبیر سراسر قرآنِ مجید کی معنوی تحریف ہے اور سیاق کلام کے بالکل منافی ہے۔بلکہ روافض سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے افضل قراردیتے ہیں جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت نوح علیہ السلام کے گروہ میں شمار کرنے میں اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے بھی تمام رسول حضرت نوح علیہ السلام کے دین پر تھے۔ چنانچہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قبل حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام کا ذکر ہوا۔ بلکہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا: ﴿ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ ﴾ [الأعراف: ۶۹] ’’اور یاد کرو جب اس نے تمھیں نوح کی قوم کے بعد جانشین بنایا۔‘‘ حضرت ہود علیہ السلام قوم عاد کے نبی تھے۔ ان کے بعد قوم ثمود تھی جن کی طرف حضرت صالح علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: ﴿ وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ ﴾ [الأعراف: ۷۴] |