انہی کی پیروی کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا۔ [النحل: ۱۲۳] بلکہ سب کو حکم فرمایا کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو۔ [آل عمران: ۹۵] اور یہ بھی فرمایا دیا کہ سب سے اچھا دین اس کا ہے جو ملت ابراہیم کا پیروکار ہے۔ [النساء: ۱۲۵] انھی کے بارے میں یہاں ارشاد فرمایا گیا ہے: ﴿ وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ ﴾ ’’ اسی(نوح) کے گروہ میں ابراہیم ہیں۔‘‘ امام اصمعی کہتے ہیں کہ ’’شیعہ‘‘ کے معنی اعوان و انصار کے ہیں۔ یہ ’’الشیاع‘‘ سے ماخوذ ہے جس سے وہ چھوٹی لکڑیاں مراد ہیں، جنھیں بڑی لکڑیوں کے ساتھ آگ روشن کرنے کے لیے جلایا جاتا ہے۔[1] علامہ راغب فرماتے ہیں: ’’الشیعۃ‘‘ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے۔[2] یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کے ہمنوا اور ان کے گروہ میں سے تھے۔ جو دعوت حضرت نوح علیہ السلام نے دی وہی دعوت اُنھوں نے دی۔ ابن عباس اور مجاہد فرماتے ہیں کہ ان کا وہی دین اور وہی منہج تھا جو حضرت نوح علیہ السلام کا تھا۔ اسی سے ’’شیعان علی ‘‘ ہیں، یعنی وہ گروہ جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اعوان و انصار تھے یا اپنے آپ کو ان کا ہمنوا سمجھتے ہیں۔ بنیادی طور پر شیعہ کی دو قسمیں ہیں: 1 وہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے یا اصحاب ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے افضل سمجھتے ہیں اور اس میں غلو کے مرتکب نہیں۔ 2 وہ جو غالی ہیں اور حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر معترض ہوتے ہیں۔ اور حضرت عثمان، طلحہ، زبیر، معاویہ، عمرو بن عاص اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم |