﴿ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ﴾ [النساء: ۱۲۵] ’’اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔‘‘ یہ بھی ارشاد فرمایا: ﴿ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً ﴾ [النحل: ۱۲۰] ’’بے شک ابراہیم ایک امت تھا۔‘‘ یعنی تنہا ابراہیم علیہ السلام نے ایک امت کا کام کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہونے لگے تو دیکھا کہ مشرکین نے حضرت ابراہیم کی اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی تصویریں بنا رکھی ہیں اور اُن کے ہاتھوں میں قسمت کے تیر ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( قاتلہم اللّٰہ، لقد علموا أن شیخنا لم یستقسم بھاقط )) [1] ’’اللہ تعالیٰ انھیں ہلاک کرے، بے شک یہ جانتے ہیں کہ ہمارے شیخ (ابراہیم علیہ السلام ) نے کبھی قسمت کے تیروں کے ساتھ قسمت آزمائی نہیں فرمائی۔‘‘ حافظ ابن کثیر نے فرمایا ہے کہ یہ بخاری کے بعض الفاظ ہیں۔ مگر مطبوعہ نسخوں میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔[2] حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قیامت کے دن سب سے پہلے لباس پہنایا جائے گا، سب سے پہلے مہمان نوازی کی طرح اُنھوں نے ڈالی، سب سے پہلے ختنہ اُنھوں نے کیا، سب سے پہلے انھی کے بال سفید ہوئے، سب سے پہلے مونچھوں کو اُنھوں نے کٹوایا۔[3] |