﴿ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ (16) ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ [البلد: ۱۷، ۱۶] ’’یا مٹی میں ملے ہوئے کسی مسکین کو۔ پھر (یہ کہ) ہو وہ ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے۔‘‘ یہاں بھی ’’ثم‘‘ تراخی کے لیے نہیں بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ ان اعمال صالحہ (غلامی سے آزاد کرانے، بھوکوں کو کھانا کھلانے، یتیم کی پرورش کرنے اور مسکین کی خبر گیری کرنے) کی قبولیت کے لیے ایمان شرط ہے۔ ایمان کے بغیر یہ اعمال بے سود ہیں۔ اسی طرح یہاں بھی مقصود یہ ہے ہم نے حضرت نوح علیہ السلام کو مطلع کر دیا کہ ہم نے کفار کا کام تمام کر دیا ہے۔ گویا اس کا ذکر بطور انعام ہے اور یہ ان پر دسواں انعام ہے جس کا یہاں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے اس واقعہ میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بشارت اور تسلی ہے وہاں مشرکین مکہ کے لیے تنبیہ بھی ہے کہ آج تم اسی طرح میرے نبی کی مخالفت پر اَڑے ہوئے ہو جیسے نوح علیہ السلام کی قوم تھی۔ نوح علیہ السلام کی طرح دعوت و تبلیغ میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تم اگر اپنی ضد پر اَڑے رہے تو نوح علیہ السلام کی قوم کی طرح تم بھی ایک دن نیست ونابود کر دیے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سرفرازی اور کامیابی سے نوازے گا اور اس کی دعوت کو فروغ دے گا۔ |