Maktaba Wahhabi

212 - 438
ہیں اور اصل ’’عبد‘‘ وہ ہے جو تشریعی اُمور میں عبودیت کا اعتراف اور عملاً اس کا اظہار کرتاہے۔[1] اسی میں انسان کا کمال ہے۔ ﴿ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ اس میں حضرت نوح علیہ السلام کے کامل مومن ہونے کا بیان ہے۔ مگر مومن کیا، وہ تو اولوا العزم رسولوں میں سے تھے۔ لہٰذا یہاں مومن ہونے سے مراد کیا ہے؟ امام ابو منصور ما تریدی نے کہا ہے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ وہ رسالت سے پہلے ہی مومن تھے یا یہ کہ اُنھوں نے ایمان میں جو عہد و فا باندھا تھا اس کو اُنھوں نے عملاً پورا کر دکھایا۔ یا یہ کہ ’’أنہ من عبادنا المؤمنین بک یا محمد‘‘ کہ وہ ہمارے ان مومن بندوں میں سے تھے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ کیوں کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام ایک دوسرے پر ایمان لانے والے تھے۔ اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی و مسرت کے طور پر ہے۔[2] مگر سوال یہ ہے کہ مومن ہی نہیں انھیں محسنین میں بھی شمار کیا گیا۔ جب کہ مرتبہ رسالت مرتبہ احسان سے بالاتر ہے۔ ہر رسول محسن ہے مگر ہر محسن رسول نہیں۔ رسول مرتبہ عبدیت و احسان و ایمان کے بلند ترین مقام پرفائز ہوتا ہے۔ رسول کے ساتھ ان مراتب کے ذکرسے دراصل ان مراتب کی جلالت اور قدر و منزلت بیان کرنا مقصود ہے۔[3] ﴿ ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ ﴾ ’’پھر ہم نے دوسروں کو غرق کر دیا۔‘‘ دوسروں سے مراد کفار و مشرکین ہیں۔ ’’ثم‘‘ کو بعض نے تراخی کے معنی میں لیا ہے کہ حضر ت نوح علیہ السلام اور اُن کے ہمنواؤں کو ہم نے نجات دی پھر دوسروں کو ہم نے غرق کر دیا۔ مگر علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ یہاں ’’ثم‘‘ تراخی کے لیے نہیں بلکہ تعدید نعمت کے لیے ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
Flag Counter