اسی معنی میں کہاجاتا ہے: ’’لیس کل انسان عبداً للّٰہ‘‘ ’’ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں۔‘‘ اسی طرح جو غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے، وہ عبد الطاغوت ہے، چنانچہ یہودیوں پر اللہ کے عذاب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ﴿ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ﴾ [المائدۃ: ۶۰] ’’اور جن میں سے بندر اور خنزیر بنا دیے اور جنھوں نے طاغوت کی عبادت کی۔‘‘ حکم تو طاغوت کے انکار کا ہے، مگر انھوں نے اسے معبود بنا لیا۔ رشد و ہدایت یہی ہے کہ طاغوت کا انکار کر کے اللہ تبارک و تعالیٰ سے انسان وابستہ ہو جائے،[1] مگر خالص اللہ کی عبادت کی بجائے غیر اللہ کی عبادت شیطان کی عبادت ہے اور نور کی بجائے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف ہے۔ یوں غیر اللہ کی عبادت طاغوت کی عبادت ہے۔ انسان عبداللہ یا عبدالرحمن ہے، نہیں تو وہ عبدالشیطان ہے۔ شیطان مختلف ڈھبوں اور مختلف ناموں سے اپنی پرستش کروا رہا ہے۔ ’’عبد‘‘ کا لفظ غلام کے لیے ہو تو اس کی جمع ’’عَبید‘‘ ہے اور جب عبادت کے لیے ہو تو اس کی جمع ’’عِباد‘‘ ہے۔ اور ’’عَبید‘‘ کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ ’’عِباد‘‘ سے زیادہ عام ہوگا۔ جیسے فرمایا: ﴿ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ﴾ [ق: ۲۹] ’’اور میں بندوں پر ہرگز کوئی ظلم ڈھانے والا نہیں۔‘‘ بعض ’’عبد بالتسخیر‘‘ ہیں یا تکوینی امور کے تحت ’’عبد‘‘ ہیں۔ اس اعتبار سے فرعون، نمرود وغیرہ اہلِ معاصی سب عبد ہیں کہ وہ تکوینی احکام میں مجبور محض |