تشریفی ہے۔ اور یہی سب سے ارفع و اعلیٰ نسبت ہے بلکہ مخلوق کا کمال اسی صفت عبدیت میں ہے۔ ’’عبد‘‘ کے معنی بندہ و غلام کے ہیں اور یہ چار معنوں میں استعمال ہوتا ہے: 1 عبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خرید و فروخت شرعاً جائز ہو۔ جیسے قرآن مجید میں ہے: ﴿ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ﴾ [البقرۃ: ۱۷۸] ’’اور غلام کے بدلے غلام۔‘‘ 2 العبد بمعنی ایجاد۔ یعنی مخلوق، جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ اس معنی میں ’’عبودیت‘‘ اللہ کے ساتھ خاص ہے، جیسے فرمایا: ﴿ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا ﴾ [مریم: ۹۳] ’’آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے، وہ رحمان کے پاس غلام بن کر آنے والا ہے۔‘‘ یعنی سب مخلوق کی حیثیت سے حاضر ہوں گے۔ اسی معنی میں کہا جاتاہے: ’’والناس کلہم عباد اللہ‘‘ ’’تمام لوگ اللہ کے بندے ہیں یعنی اللہ کی مخلوق ہیں۔‘‘ 3 عبد: جو عبادت و اطاعت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام اور صلحائے عظام کے لیے یہ لفظ قرآن مجیدمیں وارد ہوا ہے۔ 4 جو دنیا کی لالچ اور حرص میں درہم و دینار کا بندہ بن جاتا ہے، جیسے حدیث میں ہے: (( لعن عبد الدینار، ولعن عبد الدرہم )) [1] ’’درہم و دینار کے بندے پر لعنت کی گئی ہے۔‘‘ |