Maktaba Wahhabi

209 - 438
’’تم اللہ کی عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے، وہ تو تمھیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پہلا مرتبہ دل میں مشاہدۂ حق کا تصور ہے کہ گویا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں۔ ایسی صورت میں نہ آنکھ کسی اور جانب اُٹھے اور نہ دل میں کسی اور کا تصور آئے۔ یہ سب سے اعلیٰ اور افضل مرتبہ ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ یہ تصور رکھاجائے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔ اس تصور سے بھی کہ’’ مالک دیکھ رہا ہے‘‘ بندہ اپنا کام پوری لگن اور انہماک سے سر انجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ مرتبۂ احسان دین کا اصل الاصول ہے اور صدیقین و صالحین کا مقصود و مطلوب ہے۔ اور ’’احسان‘‘ کا بدلہ ’’احسان‘‘ ہے: ﴿ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ﴾ [الرحمٰن: ۶۰] ’’نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کیا ہے۔‘‘ بلکہ نیکی کے بدلے سے کچھ مزید بھی ہے: ﴿ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ ﴾ [یونس: ۲۶] ’’جن لوگوں نے نیکی کی انہی کے لیے نہایت اچھا بدلہ اور کچھ زیادہ ہے۔‘‘ یہ ’’الحسنی‘‘ جنت اور ’’زیادۃ‘‘ دیدار الٰہی کا شرف ہے، جیسے فرمایا: ﴿ وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ ﴾ [قٓ: ۳۵] ’’اور ہمارے پاس مزید بھی ہے۔‘‘ محسنین کو اللہ تعالیٰ مندرجہ بالا انعامات سے نوازیں گے۔ ﴿ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴾ اس میں حضرت نوح علیہ السلام کے ’’محسنین‘‘ میں سے ہونے کا سبب اور علت بیان ہوئی ہے کہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔ اس میں ایک شرف ’’من عبادنا‘‘ ہے اور دوسرا (نواں) وصف ’’مومنین‘‘ میں سے ہونا ہے۔ یہ ’’عبدنا‘‘ عبدُہ، عبدِہ، عبادنا وغیرہ کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت
Flag Counter