Maktaba Wahhabi

208 - 438
﴿ إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو جس انعام و اکرام سے نوازا ہے اس آیت میں اس کی علت اور اس کا سبب بیان فرمایا ہے کہ یہ انعامات ان کے محسنین میں سے ہونے کا نتیجہ ہیں اور اس میں اس حقیقت کا بھی اظہار ہے کہ یہ معاملہ صرف حضرت نوح علیہ السلام سے خاص نہیں بلکہ جو احسان کی زندگی اختیار کرتا ہے ہم اس کے ساتھ ہمیشہ یہی معاملہ کرتے ہیں۔ یہ فضیلت کسی کی ذات اور شخصیت کے اعتبار سے نہیں بلکہ ہر اس خوش نصیب کے لیے ہے جو احسان کی زندگی اپناتا ہے۔ یہاں ’’کذلک‘‘ سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ تشبیہ انعامات کے تمام پہلوؤں میں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ محسنین کو ہم جزا دیتے ہیں ان کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ جس مرتبہ کے مقامِ احسان پر کوئی فائز ہوگا اسی مرتبہ کی جزا اسے ملے گی۔ انبیائے کرام علیہم السلام چونکہ احسان کے سب سے بلند مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں، اس لیے انھیں اجر و انعام بھی سب سے زیادہ ملے گا۔ اس لیے یہاں اجر میں مشابہت برابری اور تساوی کی بنیاد پر نہیں بلکہ محسنین کو جزائے احسان دینے میں ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام پر یہ آٹھواں انعام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں محسنین میں شمار کیا ہے۔ ’’محسنین‘‘ سے مراد نیکی کرنے والے ہیں۔ نیکی کی مختلف صورتیں ہیں۔ دوسروں پر انعام کرنا بھی نیکی ہے، دوسروں سے درگزر کرنا اور انھیں معاف کرنا بھی نیکی ہے۔ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینا بھی نیکی ہے۔ کسی کے حق کی ادائیگی میں اچھا طریقہ اختیار کرنا بھی نیکی ہے۔ اور سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ پورے اخلاص اور طمانیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے احکام کی بجا آوری کی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے: (( أن تعبد اللّٰہ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک )) [1]
Flag Counter