امام کسائی، الفراء، المبرد اور زمخشری رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ترکنا‘‘ کا مفعول ’’سلام علی نوح في العالمین‘‘ ہے۔ یعنی ان کے بعد آنے والوں میں ہم نے یہ کلمہ باقی رکھا۔ اس لیے اس کا مصداق ہر وہ ہے جوان کا نام لیتا ہے اور ان پر سلام بھیجتا ہے اور ’’علیہ السلام‘‘ یا ’’سلام علیہ‘‘ کہتا ہے۔ خواہ وہ نام لینے والے فرشتے ہوں یا مومن، جن ہوں یا انسان۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے: ﴿ وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا ﴾ [مریم: ۱۵] ’’اور سلام اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوگا اور جس دن زندہ ہو کر اُٹھایا جائے گا۔‘‘ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: ﴿ وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ﴾[مریم: ۳۳] ’’اور خاص سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوں گا اور جس دن زندہ ہو کر اُٹھایا جاؤں گا۔‘‘ امام سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں: مخلوق پر سب سے زیادہ وحشت تین مقامات پر ہے:1. پیدایش ۔2.موت ۔3.اور قیامت کے دن۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو ان تینوں مقامات کے شر سے سلامتی اور امن کی بشارت دی ہے۔[1] اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان تینوں مقامات کے شر سے سلامتی کی التماس کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی کا یہی پیغام دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کے لیے بھی ہے، چنانچہ فرمایا گیا ہے: |