ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی آل اولاد کے علاوہ بھی ایمان دار کشتی پر سوار تھے۔ یہاں اُن تمام پر کشتی والے ہونے کے ناتے ’’أہل‘‘ کا اطلاق ہوا ہے۔ ﴿ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ ﴾ ’’کرب‘‘ کے معنی ’’سخت غم‘‘ کے ہیں، یعنی ہم نے نوح اور ان کے ساتھ کشتی میں سوار ہونے والوں کو بہت بڑی گھبراہٹ یا غم سے بچا لیا۔ غم سے مراد یہاں سیلاب میں غرق ہونے کا غم بھی ہو سکتا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ اس سے قوم کی تکذیب اور ان کی طرف سے روز کا نت نیا استہزا، قتل کی دھمکیاں اور طعن و ملامت مراد ہے۔ سیلاب کی آفت سے بچنے کی اطلاع تو نوح علیہ السلام اور ان کے ہمراہیوں کی ہوچکی تھی، اس لیے صحیح یہی ہے کہ اس سے قوم کی ایذا رسانیوں سے نجات مراد ہے۔ اسی سے قوم کے ردِ عمل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ’’کرب عظیم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اسی ’’کربِ عظیم‘‘ سے نجات کا ذکر سورۃ الانبیاء میں بھی ہے۔[1] ﴿ وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ ﴾ ’’اور ہم نے اس کی اولاد ہی کو باقی رہنے والے بنا دیا۔‘‘ طوفان میں پوری نسل انسانی ختم ہوگئی، وہی باقی بچے، جو حضرت نوح علیہ السلام کے ہم راہ کشتی پر سوار تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ طوفان کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ جتنے مرد اورعورتیں تھیں وہ سب فوت ہو گئیں، باقی وہی بچے جو اُن کے اہل و عیال تھے۔[2] حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا جس کا نام کنعان مشہور ہے اور اپنی سرکشی کی وجہ سے طوفان میں غرق ہو گیا۔ ان کے باقی تین بیٹے: سام، حام اور یافث ہیں۔ یہ تینوں اپنی بیویوں کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔ اورآگے ان تینوں کے تین تین بیٹے تھے۔ |