کبھی ’’أہل الرجل‘‘ سے بیوی ہی مراد ہوتی ہے۔ دین اسلام میں کافر اور مسلمان کے درمیان نسبی تعلق کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ اور اصل تعلق اوراُخوّت و مودّت کی بنیاد دِین اسلام پرہی رکھی گئی ہے۔اسی بنا پر حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا گیا تھا کہ تیرا بیٹا تیرے ’’أہل‘‘ میں سے نہیں۔ زیر نظر آیت میں ’’أہل‘‘ سے مراد کشتی والے ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ﴾ [ہود: ۴۰] ’’ہم نے کہا: اس میں ہر چیز میں سے دو قسمیں (نر ومادہ)، دونوں کو اور اپنے گھر والوں کو سوار کرلے، سوائے اس کے جس پر پہلے بات ہو چکی اور اُن کو بھی جو ایمان لے آئے۔‘‘ اس کشتی میں اہلِ خانہ، تمام مومن اور جانوروں کا جوڑا جوڑا تھا۔ انھی کے بارے میں آگے یہ بھی فرمایا ہے: ﴿ قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ ﴾ [ھود: ۴۸] ’’کہا گیا: اے نوح! اُتر جا ہماری طرف سے عظیم سلامتی اور بہت سی برکتوں کے ساتھ، تجھ پر اور ان جماعتوں پر جو اُن لوگوں سے ہوں گی جو تیرے ساتھ ہیں۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے: ﴿ ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا ﴾ [الإسراء: ۳] ’’اے اُن لوگوں کی اولاد جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا! بے شک وہ بہت شکرگزار بندہ تھا۔‘‘ |